وزیر خارجہ حسین امیر عبداللھیان نے منگل کی رات ٹی وی پر ایک پروگرام میں ایران کی خارجہ پالیسی پر تفصیل سے گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ خارجہ تعلقات میں پڑوسیوں کو ترجیح حاصل ہے اور ہم خارجہ پالیسیوں میں مشرق پر نظر یا مغرب پر نظر جیسی باتیں نہيں کرتے۔
وزیر خارجہ نے کہا : برکس دوسری بڑی علاقائي تنظیم ہے جس میں اہم ملکوں کو رکنیت ہے جس کے اگلے اجلاس میں صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کو مہمان کے طور پر شرکت کی دعوت دی گئي ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے برکس کی داغ بیل ڈالنے والے پانچوں ملکوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اصول و ضوابط کے تعین کے بعد ایران ان پہلے ملکوں میں شامل ہو جنہيں اس تنظیم میں رکنیت دی جائے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے ڈالر کے تسلط کا ذکر کرتے ہوئے کہا: عالمی معیشت میں ڈالر کے تسلط کا دور ختم ہو چکا ہے۔ آج صرف ایران نہيں ہے جو مقامی اور ڈالر کے علاوہ دوسری کرنسیوں میں کام کرنے کی بات کر رہا ہے ۔
وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللھیان نے ایران و سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے بارے میں بھی کہا: کئي مہینوں سے ہم نے 5 بار بغداد میں میں3 بار عمان میں مذاکرات کئے جس کے بعد ہم نے تعلقات کا نیا دور شروع کیا اور کسی سے یہ پوشیدہ نہيں ہے کہ حالیہ بلوؤں میں علاقے اور دوسرے کچھ ملکوں نے کیا رول ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے معاملے میں اس ملک کے حکام اس نتیجے پر پہنچ گئے پڑوسی کے اصولوں اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات قائم کئے جانے چاہیے جس سے فریقین کے مفادات کا تحفظ بھی ہوگا اور علاقے کو بھی اس سے فائدہ پہنچے گا۔
وزیر خارجہ امیر عبد اللھیان نے کہا کہ مغربی فریقوں اور امریکہ کے ساتھ بالواسطہ طور پر پیغامات کا تبادلہ ہو رہا تھا، امریکی فریق یہ سمجھنے لگا کہ بلوؤں میں ہم بے حد کمزور ہو گئے ہيں اور اب وہ وقت ہے جب ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی پر معاملات طے ہو جائيں۔ ان کا اصرار تھا کہ ہم اپنی ریڈ لائن پار کریں لیکن ہم عوام کی حمایت پر بھروسہ کرتے ہوئے ریڈ لائن کو پار نہ کرنے پر ڈٹے رہے۔
انہوں نے کہا: آج بھی جب ہم بات کر رہے ہيں اگر ہمارے اور امریکہ کے درمیان پیغامات کا کوئی تبادلہ ہے تو ہم پہلی بات تو یہ ہے کہ مذاکرات کے راستے کو جاری رکھے ہيں اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنی ریڈ لائنوں پر ڈٹے ہيں۔
انہوں نے مصر سے تعلقات کے بارے میں کہا: ہمارے اور مصر کے درمیان بہت سے اشتراکات ہيں ۔ مصر کے عوام کو ایران سے لگاؤ ہے اور ایران کے عوام کو بھی مصر سے دلچسپپی ہے ۔ مختلف چیلنجوں کو چھوڑ دیں تو شام کا معاملہ ہمارے اور جناب السیسی کے تعاون کا پہلا موقع تھا، ان کا موقف دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ تھا اور ہم نے سیکوریٹی مذاکرات شروع کئے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے سلطان عمان کے تہران دورے میں تہران و قاہرہ کے درمیان تعلقات کے بارے میں بھی بات چیت ہوئي ہے۔ وہ پیغام لے کر آئے تھے جس کا مثبت جواب دیا گيا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ نے افغانستان کے سلسلے میں کہا: ہماری افغانستان کے ساتھ 900 کیلو میٹر مشترکہ سرحد ہے اس لئے افغانستان کی ہر تبدیلی کا ہماری سیکوریٹی اور سماجی صورت حال پر اثر ہو سکتا ہے، افغانستان میں ہر طرح کی عدم استحکام سے ہماری سرحدیں متاثر ہوتی ہيں جبکہ پناہ گزينوں کی وسیع پیمانے پر آمد بھی ہمارے لئے ایک چیلنج ہے۔
انہوں نے ایران کی جانب سے ایک ٹکنیکل ٹیم کو افغانستان بھیجنے کے سلسلے میں کہا : سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سیاسی میدان میں ہم طالبان کو، ایک جامع حکومت کی تشکیل کے بغیر تسلیم نہیں کرتے۔ اس سے طالبان کو تکلیف ہے لیکن ہم نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ یہ ایسی چیز ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ افغانستان صرف پختون اور طالبان پر ہی مشتمل نہیں ہے، آپ افغانسان کی حقیقت کا ایک حصہ ہیں، افغانستان میں دوسرے حقائق اور دوسری اقوام بھی رہتی ہیں۔
انہوں نے ایران کے تین جزیروں کے بارے میں روس اور خلیج فارس تعاون کونسل کے مشترکہ بیان کے بارے میں کہا: ہم جہاں بھی ایرانی عوام کے مفادات ہوں گے وہاں موجود رہیں گے لیکن آئين اور نظام کے اصولوں کی ریڈ لائن کی سختی سے پابندی کرتے ہیں، ہماری ترجیح ایشیا ہے اور دوسرے ملکوں سے ہم اپنے تعلقات کی حفاظت کرتے ہيں لیکن ہم کبھی یہ نہیں ہونے دیں گے کہ روس یا چین یہ سمجھنے لگیں کہ اب ہمارے پاس ان کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
اسی طرح انہوں نے پابندیوں کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے یہ بتایا کہ حکومت نے ان سے مقابلے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ صرف برطانیہ، جرمنی اور فرانس نہيں ہے، ہم نے ان ملکوں کے ساتھ بھی تعلقات قائم رکھے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یورپ کا ایک بڑا حصہ بھی ہے جس کے ساتھ ہم بغیر کسی پریشانی کے تعاون کر رہے ہيں ۔
آپ کا تبصرہ